پیر، 4 جولائی، 2011

میری بیوی نجمہ اور میرا دوست چوہدری۔ قسط 2

اگلے روز رات کو دروازے کی بیل بجی۔ میں نے نجمہ سے کہا کہ جا کر دروازے پر دیکھے کہ کون ہے، شاید چوہدری ہو گا۔۔۔

نجمہ نے ایک بے حد سیکسی قمیض شلوار پہنی ہوئی تھی جس کا گلا اس کے تمام ڈریسز کی طرح کافی کھلا تھا جس میں سے اس مموں کی درمیانی لائن اور آدھے ممے باہر نکلتے نظر آ رہے تھے، دوپٹہ لینے کی زحمت وہ یوں بھی کم ہی کرتی تھی۔ دروازے پر چوہدری ہی تھا جسے نجمہ نے خوش آمدید کہا اور اندر آنے کو کہا۔ چوہدری نے اندر آتے آتے نجمہ پر کمنٹ پاس کیا "نجمہ! اس ڈریس میں تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔" نجمہ شرما کر رہ گئی لیکن منہ سے کچھ نہ کہا۔
اس کے بعد ہم لوگ ٹی وی روم میں بیٹھ کر ڈرنک کرنے لگے اور دیحہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر وائن پینے لگی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ چوہدری بار بار نجمہ کو کافی نزدیک سے نظروں ہی نظروں میں پرکھ رہاتھا اور جب جب میری بیوی اسے کچھ پیش کرنے کے لیے جھکتی وہ نجمہ کے کھلے گلے میں سے جھانک کر نجمہ کے مموں کی لائن کو للچائی ہوئی نظروں سے گھورنے لگتا تھا۔ نجمہ نے جو کرتا شلوار پہنا ہوا تھا اس کے کھلے گلے میں سے نجمہ کے آدھے سے زیادہ ممے تو نظر آ ہی جاتے تھے۔ نجمہ کے ایک دم گورے اور چکنے ممے جو عائشہ تکیہ کے مموں جیسے تھے یہ بڑے بڑے اور گورے گورے لیکن نجمہ کے نپلز گلابی ہیں کالے نہیں۔
مجھے لگ رہاتھا کہ چوہدری کی حالت خراب ہو رہی ہےاور میرا اپنا لوڑا بھی ایک دم تنا ہوا تھا۔ پتا نہیں نجمہ کو معلوم ہو چکا تھا یا نہیں کہ چوہدری اس کے ممے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن نجمہ کافی فرینک قسم کی لڑکی ہے اور اسے اس بات سے زیادہ فرق بھی نہیں پڑتا تھا شاید اسی لیے وہ چوہدری کو بار بار کچھ پیش کر رہی تھی اور ہر بار پہلے سے کچھ زیادہ جھک رہی تھی اور وہ بھی بالکل چوہدری کے چہرے کے سامنے۔ نجمہ کے یوں بار بار چوہدری کے آگے جھکنے سے میری یہ خواہش کہ کہ نجمہ کو کسی غیر مرد سے چدواتا دیکھوں پوری ہوتی نظر آ رہی تھی۔
باتوں باتوں میں ہم نے تقریباً چار بوتل بیئر کی ختم کر ڈالی تھیں۔ نجمہ نے کہا کہ میری وائن کی بوتل ختم ہو گئی ہے، یہ بوتل پہلے ہی آدھی تھی اس لیے جلدی ختم ہو گئی۔
میں نے کہا "یار رات بہت بیت چکی ہے اور اس وقت کہیں سے وائن نہیں ملے گی۔ اس لیے تم بیئر ہی پی لو۔"
نجمہ بولی "نا بھئی نا! مجھے بیئر بہت چڑھ جاتی ہےاور میں ہوش کھو بیٹھتی ہوں اور مجھے کچھ یاد نہیں رہتا کہ میں نے کیا کچھ کیا ۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا "ہاں! مجھے یاد ہے تم نے ہنی مون کے دن کیا کیا ڈرامہ کیا تھا۔"
تبھی چوہدری نے پوچھا "کیا ہوا تھا اس دن؟"
یہ سن کر میں اور نجمہ ہنسنے لگے مگر چوہدری بولا "پلیز بتاؤ نا کیا ہوا تھا اس دن؟"
میں بولا "رات کو ہم لوگ ڈسکو گئے تھے اور وہاں وائن نہ ہونے کے باعث میں نے نجمہ کو بیئر کے چار پانچ پیگ پلا دیے اور اس کے بعد نجمہ نے ڈسکو فلور پر جا کر خوب ڈانس کیا اور یہی نہیں بلکہ نجمہ کسی کے ساتھ بھی ڈانس کرنے لگ جاتی تھی اور ڈانس کرتے کرتے اتنی مستی میں آ گئی کہ اپنی ٹی شرٹ بھی اتار دی۔"
یہ سن کر چوہدری نے قہقہہ لگایا۔ میں بولا "وہ تو خیر اچھا ہوا کہ وہ کینیڈا تھا اور وہاں سبھی لوگ تقریباً ننگے ہی تھے تو کچھ فرق نہیں پڑا۔"
یہ باتیں سن کر نجمہ کا چہرہ شرم کے مارے لال ہو گیا اور وہ بولی "شٹ اپ یار! میں نے کون سا یہ سب جان بوجھ کر کیا تھا۔۔۔ میں اس وقت نشے میں تھی اور مجھے کچھ ہوش ہی نہیں تھا۔"
یہ سن کر چوہدری بولا "نشے میں انسان وہی کرتا ہے جو اس کا دل چاہتا ہے یا اس کی جو دلی خواہش ہوتی ہے۔" یہ سن کر نجمہ مزید شرمانے لگی اور مسکرا کر خاموش ہو گئی۔
میں یہ سب سن رہا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ آج اپنی بیوی نجمہ کو بیئر پلا ہی دیتا ہوں کیونکہ نجمہ آج کافی موڈ میں ہے اور آج چوہدری بھی پر ہے، آج دونوں کو اتنی پلا دیتا ہوں کہ دونوں اپنے ہوش کھو بیٹھیں اور پھر دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے۔ چوہدری یہ تو جان ہی چکا تھا کہ پینے کے بعد نشے میں نجمہ کو کچھ شرم حیا اور ہوش نہیں رہتا تو و سکتا ہے کہ وہ اس بات کا فائدہ ہی اٹھا لے اور مجھے اپنی بیوی نجمہ کو کسی غیر مرد سے اپنے سامنے چدواتے ہوئے دیکھنے کا موقع مل جائے۔
یہی سب سوچ کر میں نے نجمہ سے کہا "یار ایک گلاس بیئر سے کچھ نہیں ہو گا، پی لو۔"
نجمہ نے پھر بھی انکار میں گردن ہلائی اور بولہ "نہ بابا مجھے ڈر لگتا ہے۔"
میں نے اسے کہا "یار پی لو، اچھا نہیں لگتا نا کہ ہم دونوں پی رہے ہیں اور تم یوں ہی بیٹھی ہوئی ہو۔"
تبھی چوہدری نے کہا "ہاں بھابھی اگر آپ نہیں پییں گی اور یونہی خالی بیٹھی رہیں گی تو ہمیں اچھا نہیں لگے گا،ہم باتیں کرتے رہیں گے اور آپ بور ہوں گی۔"
نجمہ پھر بھی نہ مانی تو میں نے تھوڑا سا غصے میں کہا "نجمہ! تم اپنے گھر میں ہی ہو، اگر نشہ چڑھنے لگے گا تو سو جانا۔ اب مہمان کے ساتھ یہ تو مت کرو ۔ کبھی کبھار مہمانوں کے ساتھ تو بیئر چلتی ہے۔ کم آن تھوڑی سی پیو ہمارے ساتھ یار۔" یہ کہہ کر میں نے نجمہ کے ہاتھ میں کنگ فشر کی سٹرونگ بیئر کا گلاس تھما دیا۔
اس سے پہلے میری بیوی نے اگر کبھی بیئر پی بھی تھی تو وہ ایک دم لائٹ بیئر تھی لیکن میں نے آج اسے جان بوجھ کر سٹرانگ بیئر دی تھی تا کہ وہ جلد از جلد اور زیادہ نشے میں دھت ہو جائے۔
پھر ہم لوگ باتیں کرنے لگے اور باتوں کے دوران صاف لگ رہا تھا کہ نجمہ کو نشہ چڑھتا ہی جا  رہا تھا۔ اسے کافی جلدی نشے چھانے لگا تھا کیونکہ ایک تو وہ کافی دنوں کے بعد بیئر پی رہی تھی او ردوسرے وہ بیئر تھی بھی کافی سٹرانگ۔ اس کا بیئر کا گلاس ختم ہو چکا تھا اور میں جانتا تھا کہ ایک مرتبہ نشے میں آ جانے کے بعد وہ اور زیادہ پینے سے نہیں جھجکتی تھی۔ میں نے اسے کہا "تم بیٹھو، میں کچن سے جا کر فرج میں سے بیئر نکال کر لاتا ہوں۔"
تبھی چوہدری بولا "یار میرے لیے بھی ایک لے آنا۔" میں نے چوہدری سے جواب میں "ضرور" کہا  اور مسکراتا ہوا کچن کی طرف بڑھ گیا۔
میں کچن میں گیا اور وہاں سے وہسکی کی بوتل نکالی جو میں کچن کے اوپر والے شیلف میں ہمیشہ چھپا کر رکھتا ہوں اور نجمہ کے بیئر کے گلاس میں دو پیگ وہسکی ملا دی۔ مجھے معلوم تھا کہ نجمہ کو چڑھ چکی ہے اور نشے میں اسے ذائقے کا فرق کہاں معلوم ہونا تھا۔ اسی طرح میں نے تھوڑی سی وہسکی چوہدری کی بیئر میں بھی ملائی اور گلاس لے کر دوبارہ ان کے پاس ہال میں آ گیا اور ان کے گلاس ان کے ہاتھوں میں تھما دیے۔
ہم لوگ پھر سے ڈرنک کرنے لگے تھے۔ اب نجمہ کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہسکی نے اپنا کمال دکھا دیا تھا، کاک ٹیل نے اثر تو کرنا تھا، اسے پوری طرح چڑھ چکی تھی اور وہ مکمل نشے میں دھت ہو چکی تھی۔ چوہدری کو بھی کافی چڑھ چکی تھی۔ اب میں نے سوچا کہ کیسے دونوں کو مزید قریب لایا جائے۔ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور میں نے نجمہ سے کہا "نجمہ، میرا موبائل کچن میں رہ گیا ہے، وہ تو مجھے لادو پلیز۔"
نجمہ نے اثبات میں گردن ہلائی اور اٹھ کر نشے میں لہراتی ہوئی اپنے مست چوتڑ مٹکاتے کچن کی طرف بڑھ گئی۔ جیسے ہی وہ ہال سے نکلی میں نے صوفے پر اپنے پاس اس جگہ جہاں نجمہ بیٹھی ہوئی تھی، بیئر گرا دی۔ اس دوران نجمہ کچن سے واپس لوٹی  اور بولی "آپ کا موبائل وہاں تو نہیں ہے۔"
اس دوران میں صوفے پر نیم دراز ہو گیا تھا تا کہ نجمہ کے پاس کوئی جگہ نہ بچے بیٹھنے کو۔ میں نے جواباً کہا"اوہ اچھا، شاید مجھے کافی نشہ چڑھ گیا ہے تبھی بھولنے لگا ہوں، خیر کوئی بات نہیں ابھی مل جائے گا۔ میں تھوڑا ریسٹ کرتا ہوں تب تک تم دونوں انجوائے کرو۔"
صوفے پر میں نیم دراز تھا اور باقی ماندہ جگہ بیئر گرنے کے باعث پوری طرح گیلی ہو رہی تھی۔ اب نجمہ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا سوائے چوہدری کے ساتھ بیٹھنے کے۔ چوہدری اس کی پریشانی بھانپ گیا اور اسے بولا "بھابھی! ادھر آ جائیں! یہاں کافی جگہ ہے۔ ادھر بیٹھ جائیں۔" نجمہ اب چوہدری کے پاس اس کے بازو میں بیٹھ گئی اور وہ دونوں ڈرنک کرنے لگے۔
میں کچھ ہی دیر میں سونے کی ایکٹنگ کرنے لگا لیکن آنکھوں کی جھری سے انھی کی جانب دیکھتا رہا اور ان دونوں کی باتیں سننے لگا۔ وہ دونوں کافی نشے میں تھے اور اب تک ایک دوسرے سے کافی فرینک بھی ہو چکے تھے۔ چوہدری بار بار نجمہ سے یہی پوچھ رہا تھا کہ "بھابھی! آپ نے ہنی مون پر ڈسکو میں اپنی ٹی شرٹ کیوں اتاری تھی؟" اور جواب میں نجمہ صرف ہنس رہی تھی۔ کچھ دیر ان کی باتیں سننے کے بعد مجھے لگا کہ شاید مجھے ان دونوں کو کچھ مزید تنہائی دی جانی چاہیے اور تھوڑی اور پلانی چاہیے، تب شاید کچھ کام بن سکے۔
اس خیال کے تحت میں اٹھا اور بولا "یار آخری ڈرنک ایک ایک وہسکی کی لی جائے اور سویاجائے۔"
چوہدری بولا "یار وہسکی نہیں کاک ٹیل ہو جائے۔"
میں نے کہا "کوئی بات نہیں یار  پی لیتے ہیں۔ ویسے بھی بیئر تو کافی پی چکے ہیں۔ چلو کچھ نیا آزماتے ہیں اور یوں بھی نجمہ کو وہسکی زیادہ پسند ہے۔" نجمہ فل ٹُن تھی اسی لیے میری بات پر محض مسکرا دی۔ اور چوہدری نے تو یوں بھی کیا ہی منع کرنا تھا۔ میں اٹھا اور پہلے اپنے بیڈ روم میں گیا اور وہاں سے چار ویاگرا نکالیں اور پھر کچن میں آ گیا۔ دونوں کے گلاسوںمیں دو، دو  گولیاں ویاگرا کی ڈال کر اچھی طرح انھیں حل کیااور تھوڑی سی کولڈ ڈرنک بھی شامل کر دی تا کہ ایک تو ذائقے میں فرق محسوس نہ ہو اور دوسرا ویاگرا نظر نہ آئے۔ پھر لا کر ان دونوں کو ان کے گلاس پکڑائے اور ان سے کہا "یار تم لوگ اپنی ڈرنک آرام سے پیو، مجھ سے مزید نہیں بیٹھا جا رہا، میں چلا سونے۔"
پھر میں نے چوہدری سے کہا "یار تُو کافی پی چکا ہے اس لیے پلیز اس حالت میں گاڑی ڈرائیو مت کرنا، یہیں گیسٹ روم میں سو جانا اور صبح چلا جانا۔" اس کے میں نے نجمہ سے کہا "نجمہ، چوہدری کو گیسٹ روم تک چھوڑ کر آ جانا۔  گڈ نائٹ!"
یہ کہہ کر میں اپنے بیڈ روم میں گھس گیا اور وہاں کی لائٹیں بجھا دیں اور کی ہول سے باہر ہال میں جھانکنے لگا۔ دونوں فل ٹُن تھے اور نجانے کیا کیا بول رہے تھے۔ اتنا سمجھ آ رہا تھا کہ چوہدری نجمہ سے پوچھ رہا تھا کہ بھابھی، شادی سے پہلے آپ کا کوئی بوائے فرینڈ تھا؟ نجمہ کا جواب "ہاں" سن کر میں سخت حیران ہوا اور میرا لوڑا پہلے سے بھی زیادہ ٹائٹ ہو گہا۔
پھر چوہدری نے پوچھا "کیا آپ نے کبھی اسے کس کی تھی؟" اور اس پر بھی نجمہ نے کہا "ہاں! کالج کی پارٹی تھی اور ہم لوگوں کا کالج میں آخری دن تھا۔ تب اس نے مجھے فرینچ کس کی تھی۔ "
مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کیونکہ نجمہ نے مجھے کبھی یہ نہیں بتایا تھا اور آج ایک اجنبی کو جو ابھی ابھی اس کا دوست بنا تھا، یہ سب بتا رہی تھی۔
پھر چوہدری نے کہا "نہیں بھابھی، یہ نہیں ہو سکتا، مجھے تو یقین نہیں آ رہا کہ آپ کو فرینچ کس کرنا آتا ہو گا۔"
نجمہ بولی "یار مجھے آتا ہے۔"
چوہدری بولا "نہیں بھابھی، مجھے یقین ہے آپ کو نہیں آتا ہو گا۔"
نجمہ چڑ گئی اور بولی "آتا ہے بھئی مجھے، کیا ثبوت دوں تمھیں کہ مجھے فرینچ کس کرنا آتا ہے؟ ہاں بولو، بولو!"
میں سمجھ گیا کہ چوہدری کے دماغ میں یقیناً وہی بات ہو گی کہ نشے چڑھنے کے بعد نجمہ کو کچھ ہوش نہیں رہتا اور اگلے روز اسے کچھ یاد بھی نہیں رہتا تو شاید وہ اسی بات کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں یہی ہو گا کہ جب یہ لڑکی پبلک میں اپنی ٹی شرٹ نشے کی حالت میں اتار سکتی ہے تو اس حالت میں وہ اسے فرینچ کس بھی کر سکتی ہے۔ مجھے لگا کہ اب جلد ہی کچھ سیکسی دکھنے کو ملنے والا ہے اور یہی سوچ کر میرا لورا اکڑنے لگا تھا۔
چوہدری اب اپنی جگہ سے کھسکا اور نجمہ کے بالکل ساتھ آ کر بیٹھ گیا اور نجمہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا "اب مجھے ثابت کریں کہ آپ کو فرینچ کس کرنی آتی ہے۔" یہ کہتے ہی اس نے میری بیوی کی کمر کے گرد ہاتھ ڈالا اور میری بیوی کو اپنی جانب کھینچتے ہوئے اس کے گلابی اور رسیلے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنا شروع کر دیا، نجمہ نے قطعاً کوئی مزاحمت نہ بلکہ چند ہی لمحوں میں وہ ایک دوسرے کی زبانیں چوس رہے تھے۔ تقریباً پانچ منٹ تک فرینچ کس کرنے کے بعد چوہدری نے نجمہ کے ہونٹوں کو چھوڑا اور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا، شاید وہ نجمہ کا ردعمل دیکھنا چاہتا ہو گا لیکن نجمہ کے چہرے پر محض ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ یہ دیکھ کر چوہدری نے میری بیوی نجمہ کو اپنی جانب کھینچا اور اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا اور ایک مرتبہ پھر اس کے رسیلے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ اس بار نجمہ بھی جواباً چوہدری کو اپنی بانہوں میں زور زور سے جکڑ رہی تھی اور بے حد سیکسی انداز میں اسے کس کر رہی تھی۔ پھر نجمہ چوہدری کے پورے چہرے کو اپنی زبان سے ہر جگہ چاٹنے لگی۔ چوہدری اس دوران اپنے دونوں ہاتھ نجمہ کے مموں پر لے جا کر اس کے مخروطی ابھاروں کو  دبانے اور مسلنے لگا تھا۔
پھر چوہدری نے نجمہ کی شلوار میں ہاتھ ڈالا، چونکہ میری بیوی نجمہ اپنی شلوار میں ازاربند کی بجائے ہمیشہ الاسٹک استعمال کرتی ہے لہٰذا چوہدری کو زیادہ مسئلہ نہ ہوا اور بہت آسانی سے اس کا ہاتھ میری بیوی کی شلوار میں چلا گیا تھا اور اس نے نجمہ کو تھوڑا سا اوپر اٹھا کر  اس کی شلوار نیچے کھینچ کر اس کی رانوں میں کر دی اور نجمہ کی پینٹی میں ہاتھ ڈال کر اس کی ملائم چوت کے سہلانے لگا۔ نجمہ کی جانب سے بجائے کسی مزاحمت کے اس کی  زوردار سسکیاں سن کر چوہدری کا حوصلہ بڑھا اور اس نے پہلے تو میری بیوی کی قمیض اتاری اور کچھ دیر اس کے سینے اور ستواں پیٹ کو سہلانے اور چومنے کے بعد اس نے ایک جھٹکے سے نہ صرف نجمہ کا برا اتار پھینکا بلکہ ٹانگوں میں پڑی نجمہ کی شلوار کو بھی ایک ہاتھ سے اس کی ٹانگوں سے نکال دیا۔ یہ دیکھ کر میری حالت خراب ہو رہی تھی کہ میری بیوی نجمہ چوہدری کی گود میں اس حالت میں بیٹھی تھی کہ سوائے پینٹی کے وہ پوری ننگی ہو چکی تھی۔ اس کا قیامت خیز بدن حشر برپا کر رہا تھا۔ اس کے گلابی ابھرے ہوئے نپلز والے گورے دودھیا ممے، اس کا ستواں پیٹ، اس کی ملائم اور چکنی رانیں، غرض کہ کسی بھی مرد کو مارنے کے مکمل سامان ہو چکے تھے۔ چوہدری کی گود میں بیٹھے ہوئے اس کے میڈیم سائز بوبس ہلکے ہلکے اچھل رہے تھے، اس کے بوبس بالکل ایسے تھے جیسے کسی کالج کی نوجوان دوشیزہ کے ہوں۔
واہ کیا سین تھا کہ میری بیوی کے ان قیامت خیز مموں کو میرا دوست چوہدری میرے ہی گھر میں نہ صرف ننگے کر چکا تھا بلکہ انھیں پاگلون کی طرح بے خوف ہو کر چوس بھی رہا تھا اور آہستہ آہستہ کاٹ بھی رہا تھا اور میری بیوی بڑے مزے سے اپنی مرضی سے اس کی گود میں ننگی بیٹھی اس سے اپنے ممے چسوا رہی تھی اور جواب میں سیکسی آہیں بھرتے ہوئے اس کو فرینچ کس بھی کر رہی تھی۔ میری خوبصورت بیوی کے ننگے ممے چوہدری کے بے تحاشا چوسنے سے دودھیا سے سرخی مائل ہو رہے تھے۔
مجھے زندگی میں اتنا مزا کبھی نہیں آیا تھا۔ میں اپنا لوڑا پینٹ سے باہر نکال کر ہاتھ میں لے کر ہلانے لگا تھا۔ میرا پلان کامیاب ہو گیا تھا۔
پھر چوہدری نے میری بیوی نجمہ کو ہلکا سا دھکا دیا اور اسے صوفے پر گرا دیا۔ نجمہ پشت کے بل صوفے پر گرگئی اور وہیں لیٹ گئی۔ اب چوہدری نے ہاتھ بڑھا کر میری بیوی کی پینٹی بھی اس کی ٹانگوں سے گھسیٹ کر اتار دی تھی اور نجمہ سر سے پاؤں تک بالکل ننگی میرے دوست کے سامنے پڑی تھی۔ چوہدری آگے کی جانب جھکا اور نجمہ کی رانوں کو چاٹتا ہوا اوپر کی طرف بڑھتے ہوئے اپنی زبان نجمہ کی چوت پر رکھ دی۔ نجمہ کے منہ سے ایک زوردار آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ  نکلی۔ چوہدری اب نجمہ کی چوت چاٹ رہا تھا اور نجمہ مزے میں سسکتے ہوئے آہیں بھر رہی تھی، بڑبڑا رہی تھی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ میں مر گئی۔۔۔ آہستہ۔۔۔ آہستہ کرو چوہدری ۔۔۔ مر جاؤں گی۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اور کرو۔۔۔ زور سےےےے ہاں کرتے رہو پلیز ایسے ہی کرتے رہو۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ  میں مری۔۔۔ بہت مز آ رہا ہے ڈارلنگ۔۔۔ اوہ یس بے بی پلیز
چوہدری لگاتار دس منٹ تک میری بیوی نجمہ کی چوت کو چاٹتا رہا اور پھر وہ نجمہ کے مموں کو اور بغلوں کو  چوسنے لگا۔ وہ بہت بہت دیر تک نجمہ کے مموں اور اس کی بالوں سے پاک بغلوں کو چومتا اور چوستا رہا۔ پھر نجمہ نے اسے کچھ اشارا کیا اور چوہدری لیٹ گیا۔ نجمہ نے چوہدری کی پینٹ کی بیلٹ اور زپ کھولی اور چوہدری کی ٹانگوں سے کھینچ کر اس کی پینٹ اتار دی۔ اب چوہدری انڈر ویئر پہنے لیٹا تھا۔ اس کے انڈرویئر کا ابھار کافی بڑا تھا، جس سے مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ چوہدری کا لوڑا کافی بڑا ہو گا۔ میری بیوی نجمہ چوہدری کے اوپر جھکی اور دانتوں سے اس کا انڈرویئر پکڑ کر نیچے کھینا۔ واؤ کیا سین تھا، ایسا تو میری بیوی نے کبھی میرے ساتھ بھی نہیں کیا تھا۔ نجمہ نے جونھی چوہدری کا انڈرویئر نیچے کیا، اس کے لوڑا پھنپھناتا ہوا اچھل کر باہر آ گیا۔ چوہدری کا لوڑا دیکھ کر میرو تو گانڈ ہی پھٹ گئی، یہ موٹا لوڑا جس کی لمبائی کسی طرح بھی ساڑھے نو انچ سے کم نہیں ہو گی۔ اسے دیکھ کر نجمہ کی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ نجمہ کا منہ حیرت سے کھلا ہوا تھا اور وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی تھی، یقیناً وہ چوہدری کا لوڑا دیکھ کر بے حد خوفزدہ ہو گئی تھی۔ لیکن اب چوہدری اسے پیچھے کیسے ہٹنے دیتا۔
چوہدری مسکرایا اور اس نے نجمہ کو پکڑ کر اپنی جانب کھینچا ارو اسے تسلی دیتے ہوئے بولا "بھابھی آپ فکر نہ کریں، میں زبردستی نہیں کروں گا۔ آپ جیسا چاہیں گی ویسا ہی کروں گا اور اگر آپ نہیں چاہیں گی تو نہیں کروں گا۔"
 نجمہ اس کی بات سن کر کچھ پر سکون ہوئی لیکن میں جانتا تھا یہ محض تسلی ہی ہے۔
مجھے ایک جانب تو چوہدری کا مست لوڑا دیکھ کر اس سے حسد محسوس ہو رہا تھا لیکن دوسری جانب ہی مجھے یہ سوچ سوچ کر ہی بے انتہا لطف آ رہا تھا کہ کیسے یہ موٹا اور لمبا لوڑا میری بیوی کی چوت میں جائے گا۔
نجمہ اب چوہدری کا لوڑا اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہلانے لگی اور کچھ دیر بعد اپنا منہ چوہدری کے لوڑے کے پاس لے گئی اور ایک نظر چوہدری کے چہرے کو دیکھ کر اسے ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے نوازا اور اس کے لوڑے کو بے حد پیار بھرے انداز میں چوم لیا۔ اب کی بار چوہدری کی آہیں بلند ہوئیں۔

آگے کیا ہوا؟ یہ جاننے کے لیے بلاگ کو مسلسل وزٹ کرتے رہیں۔
اگر کوئی لڑکی مجھ سے سیکس کرنا چاہے یا کوئی جوڑا گروپ سیکس یا وائف سویپنگ یعنی بیویوں کی ادلی بدلی میں دلچسپی رکھتا ہے تو مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ مکمل رازداری کی ضمانت۔ 
pagal.nadeem @ gmail.com

1 تبصرہ:

  1. شرط
    کمرہ دو ٹیوب لائٹس کو دودھیا روشنی سے جگمگا رہا تھا۔اور بسترکی سفید چادرپر وہ دونوں لیٹے ہوئے تھے۔ رانی اورراج۔۔۔ رانی کانازک بدن ٹیوب لائٹس کی جگمگاتی روشنیوں میں دمک رہاتھا۔ وہ کسی کھلے ہوئے گلاب کی طرح بیڈ پربکھری ہوئی تھی۔رانی کی آنکھیں بندتھیں۔۔۔ وہ راج کے پہلو میں نیم درازاس کا آدھافٹ لمبالنڈمنہ میں لے کرمزے سے چوس رہی تھی۔راج کی سسکیوں نے کمرے کا ماحول گرم کررکھاتھا۔۔ آہ۔۔اوہ۔۔ رانی کی ہرحرکت پر اس کے منہ سے ایک سسکاری نکلتی مگر رانی اس سے بے نیاز پوری دل جمعی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف تھی۔وہ پورالنڈ منہ میں لیتی اسے اپنے گالوں کے اندرونی حصوں پر پھراتی۔۔ اس کی ٹوپی کو چوستی۔۔۔ کبھی فل مستی میں آجاتی اورتیزی سے اپنا منہ اوپر نیچے کرنے لگتی۔۔ وہ دونوں گویا اس دنیا میں تھے ہی نہیں کسی اور جہان میں تھے۔ اپنے آپ میں مگن پھرراج سے برداشت نہیں ہواوہ اچانک سیدھاہوا اور رانی کو نیچے لے لیا۔ ا ب وہ رانی کواس کے منہ میں چود رہاتھا۔ اس کا لنڈ آگے جاتا اورپھرپیچھے نکل آتا۔ رانی نے دونوں ہاتھوں سے اسے تھاماہواتھا۔ لمحہ بہ لمحہ راج کی رفتارتیز ہوتی جارہی تھی ۔رانی بھی اس کا بھرپورساتھ دے رہی تھی۔رانی کے منہ سے بہتاتھوک اس کے گالوں سے ہوتا ہواتکیہ کوبھگورہا تھا۔یکایک راج نے ایک زوردارجھٹکا لیا اورپھروہ اس کے اوپر جھک گیا۔ اس کے بدن کوہلکے جھٹکے لگ رہے تھے مگراس کا لنڈ رانی کے منہ میں جڑتک گھسا ہواتھا۔ وہ جھڑگیاتھا۔۔منی کافوارہ رانی کے حلق میں گررہا تھا۔منی کی رفتاراتنی تیز تھی کہ رانی سے سانس لینابھی مشکل ہوگیاتھا۔ اس کا منہ سرخ ہوگیا۔ چند سیکنڈزمیں راج خالی ہوگیا اور اس نے لنڈ باہر نکال لیا۔نکلتے ہوئے لنڈ سے چندقطرے نکلے اوررانی کے گالوں سے چپک گئے۔ راج گہری سانسین لیتاہوا اس کے پہلومیں گرساگیا۔رانی براسامنہ بناکراٹھی اورٹشوپیپرسے اپنا منہ صاف کرنے لگی۔توبہ ہے۔۔ اس نے کہا۔۔۔تم نے پوری منی میرے منہ میں انڈیل دی۔۔ مجھ سے توسانس تک نہیں لیا جارہاتھا۔ کچھ اندربھی گئی یا ساری باہرنکال دی۔۔راج نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔آج توتم نے میرے پانی کاذائقہ چکھ لیا۔۔ سچ بتاوٴ کیسالگا؟پورے پاگل ہو۔۔رانی نے جواب دیا۔۔اتناتیزنکلی کہ ذائقہ کا پتانہیں چلا۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو راج نے بے اختیاراسے اپنے اوپرکھینچ لیا۔اس کے ہونٹ رانی کے ہونٹوں سے چپک گئے اور وہ دونوں پرجوش اندازمیں کسنگ کرنے لگے۔ رانی کا جوش بہت بڑھا ہواتھا۔ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا اس نے اس کی آگ بڑھا دی تھی۔ اسے اپنی رانوں کے درمیان ہزارواٹ کا بلب جلتاہوا محسوس ہورہا ہے۔ لیس دارپانی گرم لاوے کی طرح اسکی چوت سے نکل کررانوں کوبھگورہاتھا۔ راج کواس کے جوش کااندازہ تھا۔اسے پتاتھا کہ اب اسے

    جواب دیںحذف کریں